عبد العزيز بن عبد الرحمن آل سعود
“میں اپنے اسلامي بھائیوں کے خلاف نہیں لڑوں گا”
برطانیہ نے بانی سعودیه بادشاہ عبدالعزیز – خدا کی رحمت انکی روح پر – سے عثمانی سلطنت کے خلاف لڑنے کا مطالبہ کیا، وہی سلطنت جس کا تختہ موجودہ ترک ریاست کے بانی اور اردگان کے ہیرو اور رول ماڈل “اتاترک” نے الٹا تھا
یوں برطانیہ نے شاہ عبد العزیز کو خلیفه کا لقب، اقتدار، مالی اور فوجی حمایت کی پیشکش کی، جو انہوں نے مسترد کر دی اور اس کے ر دعمل میں کہا
“میں اپنے اسلامي بھائیوں کے خلاف نہیں لڑوں گا”
بعدازاں، مكه کے شریف حسین، اور اردن کے بانی قوم پرست عرب انقلاب کے رہنما نے برطانوی پیشکش کو قبول کر ليا
شاہ عبدالعزیز نے اس پہ شریف مکہ کو جھٹلایا، اور جس کو شاہ عبدالعزیز نےظالمانہ اور ناقابل مافی سمجھا
شریف مکہ نے ردعمل میں 1924 میں شاه عبدالعزیز اور ان کے تحت نجد ڈومین سے تعلق رکھنے والے تمام حجاج پر پابندی لگادی- یہ وه آخری حربہ تھا جس پر حاشمی شریف حسین اور بادشاہ عبدالعزیز آلاسعود کے درمیان جنگ چھڑ گئی
تین ہزار افراد کی ایک قوت (زیادہ تر اوتیبه قبیلے سے تعالق رکهنے والے) نجد سے چلی اور شریف حسین کی طائف سے آئ افواج سے ٹکرا گئی
جنگ الہاویہ کے علاقعے میں ہوئی – کئی ناکام حملوں اور جھڑپوں کے بعد آلاسعود کے اخوانیوں نے ایک بهرپور طاقتور حملہ کیا ، جس نے شریف کی افواج کی پہلی صفوں کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور ناتجربه کار پچهلی صفوں کو غیر منظم کر کے پیچھے دھکیل دیا
شریف حسین نے اپنی فوج کی تائف سے مکمل واپسی کو دیکھ کر بادشاهت سے استعفی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے بیٹے علی کو اقتدار دے دیا – اس اقدام نے بهی ہاشمیوں کی مدد نہیں کی اور انکی غیر منظم فوجیوں نے اپنے اسٹیشنوں کو چھوڑ دیا
لآخر عبدالعزیز کی فورسز 28 اکتوبر 1923 کو باآسانی بغیر مزاحمت کے مکہ میں داخل ہوئے – حسین شریف پہلے سے ہی اکابا اردن کے جانب سفر كر چكے تهے