مصنف: ضحاك تنوير
سوشل میڈیا پر راؤنڈ کرتی ایک خبر کے مطابق، سعودی عرب کے مقدس شہر مدینہ میں ایک ٹیکسی ڈرائیور نے چھ سالہ “شیعہ” بچے کو اسکی ماں کے سامنے سر قلم کردیا، یه معلوم ہونے پر کہ ماں اور بچہ شیعه عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں
ایرانی پریس ٹی وی سے لیکر الجزیرہ کے مہدی حسن تک، ہر شخص اس کہانی کو سعودی کے خلاف استمعال کررہے ہے
ہر ذرائع ابلاغ چینل نےاس رپورٹ كو واشنگٹن کی غیر سرکاری تنظیم ” شیعہ حقوق و ضوابط مشاهده” کی بنیاد اور حوالے سے رپورٹ پیش کی ہے ایسا اداره جسے آٹھ سال قبل مصطفی اخوند نے قائم کیا جو جارج میسن یونیورسٹی ورجینیا کا ایک گریجویٹ ہے
تجزیہ
شیعہ حقوق و ضوابط کی اشاعت کا احتیاط سے تجزیہ کرنے سے اندازه ہوتا ہے کہ رپورٹ بہت ڈھیلی اختتام کی حامل ہے
رپورٹ غیر ذمہ داری طور پر کہتی ہے – کارکن نے اطلاع دی کہ اس بات چیت کے کچھ منٹ بعد ایک گاڑی آکر رکی اور مزید یہ کہتی ہے کہ گواہوں نے اطلاع دی کہ بچے كا سر قلم کر دیا تھا
سب سے پہلے یہ، کہ رپورٹ سرکاری نہیں ہے، اور یہ نامعلوم کارکنوں اور گمنام گواہوں کا ذکر کرتی ہے
وہ گواہاں کون ہیں؟ ان گواہوں کا کیا اعتبار ہے؟ ان گواہوں کا کیا پس منظر کیا ہے؟ ہم کیسے ان گواہوں کا کس طرح یقین کر سکتے ہیں؟ اس حقیقت کا کیا ثبوت ہے کہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ ٹیکسی میں سفر کررہا تھا؟ ہم کیسے جانتے ہیں کہ بچه شیعہ تها؟ اور بہت سارے سوالات کے جوابات نہیں ہیں
دلچسپ بات یہ ہے کہ شیعہ حقوق کی یه تنظیم واشنگٹن ڈی-سی سے چلائی جاتی ہے – جس جگہ کو خمینی اور اس کے جانشین ملاه عظیم شیطان کہتے ہیں – کس طرح سے تمام برائیوں کا ذریعہ ایک ملک ان کے اپنے پروپیگنڈے کی بنیاد بن گیا؟
کس طرح مدینہ سے 11,737 کلومیٹر دور سے ایک ایسی رپورٹ تیار کی جا سکتی ہے جو غیرمستند اور قابل بهروسه نه ہو؟
دوسری طرف منظر پرموجود افراد پر مبنی سرکاری رپورٹ (واشنگٹن کی نہیں) مکمل طور پر اس کے برعکس داستان فراہم کرتی ہے
سرکاری روایات کے مطابق — 35 سالہ حملہ آور ایک کافی شاپ کے اندر بیٹھا تھا (ٹیکسی ڈرائیونگ نہیں کررها تها) – جب اس نے ایک ریسٹورانٹ کے باہر ایک چھ سالہ بچہ گھومتے دیکھا – قاتل نے ماں کے ہاتھوں سے جلدی سے بچے کو پکڑا، ایک بوتل جسکو اسنے کافی شاپ کے قریب پایا اور اس بچے پر وار کیا – ایک پولیس اہلکار فوری طور پر پہنچ گیا لیکن معصوم بچہ بچا نہیں سکا
شیعہ حقوق و ضوابط کی طرف سے عیار رپورٹ نے جان بوجھ کر قارئین کو گمراه کرنے کی کوشش کی کہ سعودی عرب میں “شیعہ” کمیونٹی محفوظ نہیں ہے
ہم صرف یه جانتے ہیں که وہ بچہ معصوم تھا
اگر بچہ ایک “شیعہ” ہونے کی وجہ سے ہلاک کیا گیا تو پھر سعودی حکام نے اسے – جنت الابقی – مدینہ کے قدیم قبرستان میں دفن کیوں کیا، جہاں 14 صدی قبل رسول الله کے تمام بڑے صحابیوں کو دفن کیا گیا تھا؟
سرکاری طور پر، حملہ آور ایک پاگل اور ایک نفسیاتی تھا، جس نے شیعہ یا سنی فرق کے بغیر کسی بھی سوچ کے بغیر، ایک لمحے میں جرم کا ارتکاب کیا
کیا سعودی شیعہ مظلوم ہیں؟
اگر سعودی حکومت نے شیعہ کمیونٹی کو جبر اور زبردستی سے توڑا هوتا، تو کوئی شیعہ قابل ذکر عہدوں پر نہیں هوتا
ندهمي النصر کی ہی مثال لیں جو نیوم سٹی کے سی ای او ہے اور شاہ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اور ٹیکنالوجی میں انتظامیہ اور فنانس کے سابق ایگزیکٹو نائب صدر تهے
نتیجہ
جان بوجھ کر “گمنام” پروپیگنڈہ سعودی قیادت کو بدنام کرنے کے لئے سرمایہ کاری، حصص دار اور حصول داروں کو بهگانے اور سعودی عرب کی روشن معیشت کو تباه کرنےاور ترقی پسند سعودی سوسائٹی کو روکنے کی سازش ہے
سعودی سوسائٹی پر انسانی حقوق کے خلاف ورزی کرنے کا الزام لگانا ہے، شام اور یمن میں معصوم خواتین اور بچوں کی قاتلین کی پردہ پوشی کرنا ہے اور ایرانی جرائم اور قتل کو چهپانا هے