زوالِ علم کے اس دور میں ہر کوئی مفتی بننے کیلئے طبع آزمائی کرتا نظر آرہا ہے، خاص کر ٹیلیویژن اور اجتماعی مواصلات سوشل میڈیا نے تو مذکورہ خواہش رکھنے والوں کو بہترین میدان فراہم کیا ہے، چنانچہ موہنجوداڑو میں چھپے خزانے کی کھوج کی طرح ہر دن ایک نئے مفتی کا حصول ہو رہا ہے، نیز روز بروز نت نئی تحقیق سامنے آرہی ہے، اور اس تحقیق کو مزخرف کرکے ایسے پیش کیا جارہا ہے گویا کہ علی الصبح کوئی نئی وحی ان کے ہاتھ لگی ہو۔
ہم اہل علم اور تحقیق و جستجو کے بالکل بھی خلاف نہیں، لیکن تحقیق کے نام پر “تحکیک” اور علم کے نام پر “الم” سے ہمیں ویسی ہی تکلیف ہوتی ہے جیسے کسی نوزائیدہ بچے کے کان میں ریل کی سیٹی قریب سے بجانے سے ہوتی ہے۔
دورِ حاضر میں تقریبا ہر شخص سیال قلم کا مالک ہے، لکھاریوں کا سیلاب امنڈ پڑا ہے، زبان سے زیادہ انگلیاں رقص کرتی نظر آرہی ہیں، ہر شخص آزادی رائے کے نام پر بلا خوف و خطر کسی بھی موضوع پر خامہ فرسائی کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا، چاہے وہ اس موضوع سے بالکل نابلد ہو یا اس تعلق سے اس کی حیثیت طفل مکتب سی ہو۔
شرعی علوم کو چھوڑ کر دیگر علوم میں جس سے آپ کی وابستگی نہ ہو اگر آپ رائے زنی کرتے ہیں تو اس میدان کے ماہرین آپ کا بخیہ ادھیڑ نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ تے ہیں، ہر جگہ آپ کا ناطقہ بند ہو جاتا ہے، ذلت ورسوائی الگ سے پروسی جاتی ہے۔
لیکن اگر آپ مسلمان ہیں، شرعی علوم سے آپ کے سات پشتوں تک کا کوئی رشتہ نہیں ملتا اس کے باوجود اگر آپ کوئی ایسی رائے پیش کریں جو نقلا، عقلا اور علما مضحکہ خیز ہو پھر بھی بعض ثقافتی حلقے میں آپ کی کافی پذیرائی ہوگی، بلکہ آپ جیسی شخصیت کیلئےان کے دل کے سارے دروازے کھلے ملیں گے۔
دین اسلام کے مسلمات سے چھیڑ چھاڑ کرنا اور پھر اپنی رائے کے ذریعہ ان اصولوں کو غلط ثابت کرنے کا چلن عام ہو چلا ہے۔
محمد المسعری جو اصل میں سعودی ہے لیکن امریکہ میں پناہ گزین ہے، اس نے فیزیکس فزکس میں پی ایچ کی ڈگری حاصل کی ہے، اور اس کا استاذ بھی رہ چکا ہے، اس نے حال ہی میں اپنے ایک ٹویٹ میں معاویہ رضی اللہ عنہ پر نعوذباللہ لعنت کرنے کی بات کی ہے۔
مولانا مودودی ایک سیاسی اور فلسفی تھے، لیکن خمینی کے انقلاب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ تمام حدیں پار کردیں، انہوں نے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنی عتاب کا نشانہ بنایا۔
سید قطب ایک قلم کار تھے، لیکن یہ ہر فکر سے متاثر تھے، ان پر سب سے زیادہ خارجیت غالب تھی، انہوں نے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ پر بہتان تراشیوں میں اپنا پورا زور صرف کیا ہے۔
یہ تینوں اور ان کے ہمنوا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک ہی پلیٹ فارم پر قائم ہیں۔
مذکورہ اشخاص میں سے کسی کا بھی تخصص شرعی علوم نہیں، لیکن تینوں اپنے اپنے طور مفتی مانے جاتے ہیں، بلکہ ان کے فتاوے کو محدثین وفقہاء پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
اگر آپ بیسویں صدی سے قبل کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اہل سنت والجماعت کا لبادہ اوڑھ کر منظم طریقہ سے صحابہ کی جماعت کو نشانہ بنانے کا کام پہلے کبھی نہیں ہوا، کیوں کہ اس سے قبل سب اپنے اپنے فن کے اصول و ضوابط سے بخوبی واقف تھے، اور انہی مسائل سے وہ دلچسپی لیتے تھے جس میں ان کا تخصص ہوتا تھا۔
اگر سلف کے اقوال کو بغور پڑھ لیا جاتا تو صحابہ پر یوں طعن کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی، لیکن جب کج فکر افراد کو اپنا مرشد وقائد مان لیا جائے تو:
إذا كان الغراب دليل قوم يمر بهم إلى جيف الكلاب
صادق آتا ہے۔
اگلی قسط میں “معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقام علماء اسلام کے اقوال کی روشنی میں” ملاحظہ فرمائیں، ان شاءاللہ۔
مصنف : ابو احمد کلیم – جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ