مصنف : ابو احمد کلیم الدين يوسف
اسلام اپنے ماننے والوں کے مشاعر، احساسات اور جذبات کا پورا خیال رکھتا ہے، کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کے مشاعر کو ٹھیس پہنچائے، جذبات سے کھیلے، وقار کو مجروح کرے اور احساسات کی ناقدری کرے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کے بارے میں وہی سوچ رکھنے کی تلقین فرمائی ہے جو ایک مسلمان خود اپنے بارے میں سوچتا ہے، جب ایک آدمی یہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس سے جھوٹا مذاق کرے، اسے پریشان کرے اور اسے مشکل میں ڈالے تو اپریل کی پہلی تاریخ کو دوسروں کے ساتھ یہی نازیبا حرکتیں کرنے کا جواز اسے کہاں سے مل جاتا ہے، کیا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح مخالفت نہیں؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ دسرے مسلمان کو ہراساں کرے اور اسے ڈرائے”، کیا اپریل کی یکم تاریخ کے موقع پر خوفناک اور دل دہلا دینے والا مذاق نہیں کیا جاتا۔
جھوٹ تو ویسے ہی کبیرہ گناہ ہے، پھر اس جھوٹ میں خوف و دہشت کی آمیزش تو اس شر کو مزید ہولناک بنا دیتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپس میں مذاق کرتے تھے لیکن ان کا مذاق مبنی بر حق ہوتا تھا، جھوٹ سے پاک ہوتا تھا، اور مذاق کسی کی رسوائی یا اس کو پریشان کرنے کا سبب نہیں بنتا تھا، اس لئے اس موقع پر غیروں کے رنگ میں خود کو رنگنے سے محفوظ رکھئے، اور اللہ کی پکڑ کا خوف دل میں بٹھائے، چھوٹا گناہ بھی آپ کے لئے باعث ہلاکت ہو سکتا ہے، آپ کی زندگی کی رونقیں، برکتیں اور راحتیں دوسروں کو ہراساں و پریشان کرنے کے عوض چھن سکتی ہیں، گناہ کو معمولی نہ سمجھیں، نبی نے گناہ کو معمولی سمجھنے سے منع فرمایا ہے، جب آدم علیہ السلام کو شجر ممنوعہ کا صرف ایک پھل کھانے کے سبب اللہ جنت سے نکال سکتا ہے، بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل کر سکتا ہے تو پھر اپریل کی پہلی تاریخ کو جھوٹ بولنے، مسلمان کے ساتھ بھدا مذاق کرنے، مسلمان کو تکلیف پہنچانے اور غیروں کی مشابہت اختیار کرنے کے بدلے اللہ رب العالمین اسے کن کن عذاب سے دوچار کرےگا اس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے ۔
اس لئے اپنی جنت، رب کی رضا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا سودا اپریل فول سے نہ کریں، اپنے آپ کو اور اپنی جنت کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔