علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جو کچھ بھی ہوا وہ اجتہاد پر مبنی تھا، جن کا اجتہاد صحیح ہے وہ دو اجر کے مستحق ہونگے، اور جو اپنے اجتہاد میں غلطی کرگئے وہ ایک اجر کے مستحق ہونگے۔
دوسری بات یہ کہ قدرو منزلت میں ان کا موازنہ ان کے بعد کے لوگوں سے کرنا بالکل خلافِ عدل وشریعت ہے، کیوں کہ
اللہ ان سب سے راضی ہے۔
وہ سب کے سب قرآن کی شہادت کے مطابق جنتی ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالخصوص ان نفوسِ قدسیہ کے متعلق بدزبانی سے منع کیا ہے۔
اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں، یعنی سب سچے اور ثقہ ہیں۔
اس لئے ان کے مابین ہونے والے آپسی اختلافات کو اسی نظر سے دیکھنا جیسے ہم اپنے درمیان کے اختلافات کو دیکھتے ہیں، نیز ان اختلافات کا محاکمہ اسی طرح کرنا جیسے ہم اپنے درمیان کے اختلافات کا کرتے ہیں کم علمی اور مزاجِ شریعت سے عدمِ واقفیت کا بین ثبوت ہے۔
یاد رہے کہ کتاب وسنت کو سمجھنے میں ہم آزاد نہیں ہیں، بلکہ کتاب وسنت کے کسی بھی مسئلہ کو فہم سلف کے مطابق ہی سمجھنا نقطہ اتصال کی حیثیت رکھتا ہے جسے بروئے کار نہ لانا اسلام کی حقیقی تعلیم سے دوری اور ضلالت وگمراہی کی پگڈنڈیوں پر گامزن ہونے کا بنیادی سبب ہے۔
اگر کتاب وسنت کو سمجھنے کے لیے فہم سلف کی ضرورت نہیں ہوتی تو خوارج، معتزلہ، قدریہ، روافض، مرجئہ، جہمیہ اور دیگر تمام فرقِ باطلہ اپنے منہج اور استدلال واستنباط میں صحیح قرار پاتی، کیوں کہ یہ تمام فرقے اپنی کج روی اور باطل نظریات پر کتاب وسنت سے ہی استدلال کرتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہر کسی کی سمجھ سے کتاب وسنت کو نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ ہی ہر کسی کی سمجھ قابلِ اعتبار ہو سکتی۔
ایک اور بات کا جاننا بہت ہی ضروری ہے کہ کسی مسئلہ میں سلف کی خاموشی قطعا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اس مسئلہ کا حل نہیں جانتے تھے، یا اس کو نہیں سمجھتے تھے، بلکہ خشیتِ الہی اور زہد و ورع کا تقاضا ہی یہی تھا کہ اس مسئلہ میں خاموشی اختیار کی جائے، اور ان مسائل پر لب کشائی کی جائے جو امت کیلئے دنیوی و اخروی زندگی کی سعادت کا سبب بنے۔
مصنف : ابو احمد کلیم – جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ