تحریر – عمران احمد ریاض الدین طائفی
ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب محمد رسول اللہ ﷺ تک جتنےبھی نبی یا رسول اس جہاں فانی میں مبعوث ہوئے ان سب کی بعثت کا مقصد ایک اللہ کی عبادت کی دعوت رہا،اور اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے سنہری کڑی کو جناب محمد ﷺ پر ختم کیا ،اور آپ کی بعثت کا مقصد بھی دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح دعوت توحیدہی رہا،آپ ﷺنے انسانوں کو انسانوں کی عبادت و غلامی سے نجات دلا کر اللہ واحد و قہار کی واحدانیت اور کبریائی سے آشنا کرکے اُن کی جبینوں کو خالق و مالک حقیقی کے در پر جھکایا،لوگوں کے سامنے ان کے حقیقی رب کا تصور پیش کیا اور ان کو اس بات سے آگاہ کیا کہ ایک اللہ کے عبادت میں ہی ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی مضمر ہے،دعوت دین کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کو ان کی جائے پیدائش سے نکالا گیا، اڑھائی برس تک شعب ابی طالب میں محصور رکھا گیا، اُن کی ایسی آزمائش کی گئی کہ چشمِ فلک کے بھی آنسو نکل آئے۔ رحمۃللعالمینﷺ کو نازیبا کلمات کہے گئے، آپﷺ کو گالیاں دی گئیں، طائف کے بازاروں میں آپﷺ کے ابریشم سے بھی نازک جسمِ اطہر کو پتھروں سے مضروب کیا گیا اور جب نبی رحمت ﷺ ایک لمحے کے لیے کسی درخت کے سائے تلے آرام کے لیے رکتے تو آوارگان طائف پھر جسمِ اطہر کو تختۂ مشق ستم بنانے لگتے۔ غیراللہ کی نفی اوربت پرستی کے خلاف اعلان ِ بغاوت کرنے اور دعوتِ الی الحق دینے کی وجہ سے آپﷺکے اعزہ اور رفقائے کار کو وحشت ناک مصائب کی بھٹی میں جھونکا گیا۔دعوت دین میں آپ ﷺ کو انتہائی اندوہ ناک اور صبر آزما اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایسی ایسی اذیتیں جن کے محض تصور سے ہی انسان کا دل کانپ اٹھتا ہے۔
آپ ﷺ جس مقصد کے لئے کائنات میں نبی و رسول بنا کر بھیجے گئے آپ نے اس فريضہ نبوت کو کما حقہ ادا کیا اور بالکلی عرب میں چرغ توحید کو روشن کیا،اور تمام عرب کے دل میں توحید جب رچ بس گیا تو اللہ کے حکم سے رفیق اعلیٰ سے جا ملے،دن و رات گردش کرتے رہیں،آبادیاں بڑھتی رہیں اور تدریج با تدریج لو گوں کے دلوں میں ایک اللہ کا تصور توباقی رہا مگر عمل کے میدان میں لوگ شرک ،بدعت اور ضلالت و گمراہی کے دلدل میں پھنستے چلے گئے یہاں تک کے آپ ﷺ کی بعثت کا جو اصل مقصد تھا لوگوں نے فراش کر کے آپ ﷺ کی ذات مبارکہ کو ہی الوہیت کے صف میں لا کر کھڑا کردیا،اور لبیک یا رسول اللہ،اغثنی یا رسول اللہ کے نارے بلند ہونے لگے اورمحبت رسول کے نام پر امت میں مختلف انواع و اقسام کے شرکیات نے رواج پا لیا اور کہیں لا علمی تو کہیں جان بوجھ کر لوگوں نے ان شرکیات و بدعات کو ہی اصل دین سمجھ لیا۔
ذیل میں ہم ان شاء اللہ کتاب و سنت کی روشنی میں اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت کے بعض مقاصد کا تذکرہ کر رہیں ہیں ۔
پہلا مقصد : ایک اللہ کی عبادت کی دعوت : اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ساری کائنات کے انسانوں اور جنوں کے لئے نبی اور رسول بنا کر مبعوث ،آپ کی بعثت جس زمانے میں ہوئی وہ زمانہ اور اس زمانے کے لوگ شرک اور ضلالت و گمراہی کے اندھیروں میں سرگرداں پھر رہے تھے،لہذا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ کو کلمہ لا الہ اللہ کی دعوت کا حکم دیا کہ لوگو کو اس بات سے آگاہ کر دیں کہ وہ جنکی بھی عبادتیں کر رہیں ہیں یہ سب کے سب باطل اور منگھڑت معبود ہیں ،ان کا حقیقی معبود ایک ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے،اللہ تعالیٰ نے بعثت کے اس مقصد کو قرآن مجید میں بیان کیا اور فرمایا کہ { وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولا أَنْ اُعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ } ترجمہ : ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ( سورۃ النحل /36) اور طاغوت کا اطلاق شریعت کی اصطلاح میں ہر اس چیز پر ہے جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے یا ہو و چیز ہے جو اپنی عبادت کے طرف دعوت دے، اللہ تعالیٰ نے عقیدہ توحید کی دعوت کے لئے تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد بتایا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ {وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَانِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ}ترجمہ : اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو !جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا کہ ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کئے تھے جن کی عبادت کی جائے؟۔
دوسرا مقصد : تبشیر و انذار : نبی ﷺ کی بعثت کا ایک مقصد یہ ہیکہ جو لوگ دعوت توحید کو قبول کر کے اللہ اور اس کے رسول کے بیان کر دہ ضوابط کے مطابق زندگی گزاریں تو ان کو آپ ﷺ اللہ کی نعمتوں والی جنت کی خوشخبری سنائیں،اور اس کے بر عکس جو لوگ آپ کی دعوت قبول نہ کریں اوراپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزارکرشرکیات و خرافات میں مبتلا رہیں ان کو آپ اللہ کے تیار کردہ عذاب سے ڈرائیں جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے {وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ }ترجمہ : ہم تو اپنے رسولوں کو صرف اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبریاں سنادیں اور ڈرادیں (سورۃ الکھف/56) مزید اللہ تعالیٰ نے آپ کی بعثت کے اس مقصد کو بیان کیا کہ {رُسُلا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لأَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا} ترجمہ : ہم نے انہیں رسول بنایا ہے خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے اللہ تعالیٰ بڑٓ غالب اور بڑا با حکمت ہے۔( سورۃ النساء/165)۔
تیسرا مقصد : لوگوں کو زندگی کےبنیادی اختلاف سے نکالنے اور رضائے الہٰی کے مطابق زندگی گزارنے کی رہنمائی: اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت کا ایک مقصد یہ بھی ہیکہ آپ نے لوگوں کے اصول زندگی میں پائے جانے والے تمام تر اختلافات کا حل وحی الہٰی کی روشنی میں پیش کیا، اور ان کو یہ بتایا کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت ہو اور اس عبادت کے ذریعہ رضاالہیٰ مقصود ہونی چاہئے،جیساکہ جب ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی میں غور و فکر کریں تو اس بات کا علم ہو جائیگا کہ صحابہ کرام کی زندگی کے ہر لمحات جہاں توحید و سنت کی اتباع تھی وہیں وہ نفوس قدسیہ صرف اور صرف رضائے الہٰی کے متلاشی تھے ،اللہ تعالیٰ نے آپ کی بعثت کے اس مقصد کی وضاحت اپنی کلام مزید میں یو ں بیان کیا کہ {وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلا لِتُبَيِّنَ لَهُمْ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ}ترجمہ : اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لئے اتارا ہے کہ آپ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کر دیں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ ایمان داروں کے لئے راہنمائی اور رحمت ہے۔(سورۃ النحل/64)۔
چوتھا مقصد : لوگوں کی تعلیم اور ان کا تزکیہ نفس :آپ ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ ہیکہ اللہ رب العالمین نےجہاں آپ کو امام اعظم بنا کر مبعوث کیا وہیں آپ ﷺ کو معلم اعظم بنایا اور آپ نے لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دی،ان تمام اعمال کی نشاندہی کی جو اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے والی ہیں،وہیں آپ ﷺ نے ان تمام اعمال سے امت کو آگاہ کی اجو اللہ تعالیٰ سے دور اور جہنم کے قریب کرنے والی ہے،آپ نے لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دی ،اور آپ ﷺ نے کتاب و حکمت کی تعلیم کے ذریعہ لوگوں کے اندر پائے جانے والے میل کچیل سے ان کے نفس کا تزکیہ کیا اور تاریخ اس بات کی شاہد ہیکہ اس تزکیہ نفس کی وجہ سے جو قوم تاریخ کے اوراق میں سب سے پچھڑی ہوئی اور پسماندہ اور غیر مہذب تصور کی جاتی تھی وہی قوم تاریخ کے پارینہ اوراق میں دینی اور معاشرتی طور پر سب سے کامیاب لکھی گئی،اللہ تعالیٰ نے آپ کی بعثت کے اس مقصد کو قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا کہ {هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُمِّيِّينَ رَسُولا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمْ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ} ترجمہ : وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے،یقینا ی اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔(سورۃ الجمعۃ /2)۔
پانچواں مقصد : اقامت دین،اختلاف سے روکنے اور اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے لئے: اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو اور بالخصوص ہمارے نبی ﷺ کو یہ ایک عظیم مشن دیکر بھیجا کہ آپ اللہ کی وحدانیت پر دین کا قیام کریں لوگوں کو اس دین کی دعوت دیں،اس دین پر مکمل عمل کرنے کی تلقین کریں،اور لوگوں کو ان کے دینی و معاشرتی تمام تر معاملات میں ہر طرح کے اختلافات سے دور رہنے کی تلقین کریں،اور جب آپسی اختلاف ہو جائے تو اللہ کی وحی کے ذریعہ فیصلہ کرکے ان اختلافات کا حل کریں کیونکہ اللہ کی وحی کے علاوہ کہیں اور سے فیصلہ کرنا طاغوت کی حاکمیت قبول کرنا ہے اور شریعت نے اسے شرک اکبر سے تعبیر کیا ہے،بعثت کی اس مقصد کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان کیا کہ{شَرَعَ لَكُمْ مِنْ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ} ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دی تھا اور جو (بذریعہ وحی)ہم نے تیری طرف بھیج دی ،اور جس کی تاکید ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام ) کو دیا تھ اکہ اس دین کو قائک رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو(ان) مشرکین پر گراں گزرتی ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔(سورۃ الشوری/13)۔مزید آپ ﷺ کی بعثت کا یہ مقصد قرآن مجید ایک اور آیت کریمہ سے ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے{إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا} ترجمہ : یقینا ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو۔(سورۃ النساء/105)۔
چھٹا مقصد : لوگ آپ کی سیرت طیبہ کو اپنے لئے اسوہ اور نمونہ سمجھیں : آپ ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہیکہ ہر مسلمان اپنی زندگی کے تمام تر مراحل میں آپ کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ سمجھے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر آپ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں عمل پیرا ہو،کیونکہ آپ کی اتباع میں ہی دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرا نی مضمر ہے،کیونکہ آپ کی اتباع و تابعداری در حقیقت اللہ کی اتباع و تابع داری ہے،لہذا ہر مسلمان کو اس بات کا عمل ہونا چاہئے کہ اس کائنات کے اندر اگر کوئی ذات ہمارے لئے اسوہ و نمونہ ہو سکتی ہے اور کسی کی اتباع و تابعداری کی جاسکتی ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ کے رسولﷺ کی ذات مبارکہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بعثت کی اس مقصد کو اپنی کتاب عزیز میں یوں بیان کیا کہ {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا}ترجمہ : یقینا تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے،ہر اس شخص کے لئےجو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔ (سورۃ الأحزاب:21)۔
ساتواں مقصد : بندوں پر اقامت حجت کے لئے:اللہ رب العالمین نے نبی اکرم ﷺکو ساری کائنات کے لئے اپنا آخری نبی و رسول بنا کر مبعوث کیا ب آپ کے بعد کوئی نبی یا رسول اس کائنات میں قیامت تک نہیں آنے والا اور اگر کسی نے اپنی نبوت و رسالت کا دعوہ بھی کیا تو وہ کائنات کا سب سے بڑا کذاب و دجال شمار کیا جائے گا،اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ ہیکہ آپ کو بھیج کراللہ تعالیٰ نے اتمام حجت کر دیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ {لَوْلا أَرْسَلْتَ إلَيْنَا رَسُولاً فَنَتَّبِعَ آياتكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ ونَخْزَى} ترجمہ : اے ہمارے پروردگار تونے ہمارے پاس اپنا رسول کیوں نہ بھیجا؟ کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے اس سے پہلے کہ ہم ذلیل و رسوا ہوتے۔(سورۃ طہ/134)،اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی ایک دوسری آیت کریمہ میں بعثت کی اس مقصد کو یوں واضح کیا کہ {رُسُلا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لأَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا} ترجمہ : ہم نے انہیں رسول بنایا ہے خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے اللہ تعالیٰ بڑٓ غالب اور بڑا با حکمت ہے۔( سورۃ النساء/165)۔
یہ وہ بعض مقاصد ہیں جن کےبر آوری کے لئے اللہ کے رسول ﷺ کو اللہ تعالیٰ ے نبوت و رسالت دیکر پوری کائنات کی طرف بھیجا ،اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھتا ہیکہ آج امت اسلامیہ کی اکثریت نبی ﷺ کی بعثت کےاہم مقاصد کو بھول چکی ہے،جس کا سب سے بڑا خسارہ آج ہم نبی کائنات کے نام پر ہونے والے بدعات و خرافات کو دیکھتے ہیں۔۔ اللہ تعالی ٰ ہم سب کو کتاب و سنت کی صحیح سمجھ دے ۔۔ آمین