شہاب مرزا
17 نومبر کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی سبکدوش ہونے والے ہیں سبکدوشی سے قبل چیف جسٹس گوگوئی بابری مسجد ملکیت معاملے کا فیصلہ سنائیں گے اس لیے 17 نومبر سے قبل بابری مسجد کا فیصلہ ہونے والا ہے چیف جسٹس کہ یہ فیصلہ تاریخی فیصلہ ہوگا کیونکہ یہ معاملہ برسوں سے ہندو مسلم کے درمیان تنازعہ کا سبب رہا ہے ان برسوں میں ثالثی کی بھی کوشش کی گئے لیکن سبھی بے نتیجہ ثابت ہوئی پچھلے دنوں مولانا سید سلمان ندوی نے ملک کے مسلمانوں سے گہار لگائی تھی کہ مسلمان بابری مسجد کی ضد چھوڑ دے اور اسے اپنی جگہ سے کہیں اور منتقل کردے مولانا سلمان ندوی کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا ایک جھوٹی تسلی کے سوا کچھ نہیں!
انہوں نے یہ بھی یاد دلایا تھا کہ 1990 میں شروع کی گئی رام مندر تحریک میں بابری مسجد شہید بھی ہوئی اور اس کے بعد مسلمانوں کو قتل عام ہوا وہ تصور سے باہر ہے حتاکہ وہ ملک کے لئے ناسور بن گیا ہمارا مقصد مولانا کی تجویز کی حمایت ہرگز نہیں لیکن اس معاملے کو کہیں نہ کہیں انجام تک پہنچانا ضروری ہے اور یہ ملت کے اکابرین کرسکتے ہیں ورنہ اس ملک میں مسلمان یونہی تختہءمشق بنتے رہیں گے اب تصویر کا دوسرا رُخ دیکھئے بابری مسجد کیس کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے اس سے قبل ملک بھر میں امن و امان قائم رکھنے اور صبروتحمل کے لیے میٹنگ کا انعقاد ہو رہا ہے اردو اخبارات علماء و اکابرین ملت اور مختلف تنظیمیں جس طرح سے اپیل کر رہی ہے اگر جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس ملک کا مسلمان اشتعال انگیزی اور ہنگاموں کے سوا کچھ اور جانتا ہی نہیں!
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں امن و امان کی برقراری میں مسلمانوں کا اہم رول رہا اس بات کی تاریخ گواہ ہے کہ فسادات جھیل کر، لاشیں اٹھا کر، نقصان برداشت کرکے، جلی ہوئی بستیاں دیکھ کر بھی مسلمانوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیجیے جعلی سرخیوں میں اپیلیں کے کی جارہی ہے اور مسلمانوں کو صبر و تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا جارہا ہے دستور ہند پر کامل یقین نہ ہونے کی دہائی دی جارہی ہے ان خبروں اعلانات اور اجلاس کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شہر و ملک کے امن و امان کو مسلمانوں سے خطرہ ہیں جس طرح گھر کے بڑے شریر بچوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہی رول علماء ائمہ اور تنظیمیں ادا کر رہی ہیں اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی حقیقی صورتحال ویسی ہی ہے جیسے ظاہرکیاجارہاہے اس کے پس پردہ کچھ اور محرکات ہے صرف علماء، ائمہ اور مسلمانوں کو ہی نصیحت کی جارہی ہے؟
ہم بھی امن چاہتے ہیں لیکن یکطرفہ نصیحتیں کارگر ثابت نہیں ہوتی جو نصیحتیں اقلیتی طبقے کو کی جارہی ہے وہ اکثریتی طبقے کے ساتھ بھی ہونا چاہیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک اکثریتی طبقے نے پہل کرکے اقلیتی طبقے کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا کہ فیصلہ جو بھی ہو ہم گنگا جمنی تہذیب داغدار نہیں ہونے دیں گے۔
اس اپیل مہم میں فوٹو ماسٹر اور اشتہار باز لیڈروں کے لئے سنہرا موقع ثابت ہوا اس اپیل کے آڑ میں شو بازی شروع کی گئی ان اپیل کرنے والوں کو اقلیتوں کے تحفظ کی کوئی فکر نہیں ہے وہ صرف نام نمود اور اپنی سیاسی بقا کے لیے فکر مند ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل مسلمانوں میں اپنے تحفظات کو لے کر سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے کہ فیصلہ جو بھی ہو لیکن اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت کون دے گا؟ فیصلہ کیا ہو گا یہ کسی کو معلوم نہیں لیکن ماضی میں مسلمانوں پر بابری مسجد تنازعہ کو لے کر جو حالات گزرے ہیں اس کا خوف ان پر ابھی تک طاری ہے۔
سپریم کورٹ ہمارے ملک کے انصاف دینے والی عظیم عدالت ہے اس لیے کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہو اس کا احترام ہونا چاہیے اقلیت بے چین ھے کے کہی اس فیصلے کی آڑ میں پھر سے فرقہ پرستوں کے ظلم کا شکار نہ ہوجائے لیکن پھر بھی مسلمان اس اراضی کا حل چاہتے ہیں تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے بہرکیف کہنا یہ تھا کہ ملک کی عدالت عظمیٰ فیصلہ کرنے والی ہے اور مسلمان ملک کے دستور اور عدلیہ پر اعتماد کرتا رہیگا سوال یہ اٹھتا ہے کہ مآب لنچنگ طلاق ثلاثہ اور یکساں سول کوڈ کے نفاد کی باتیں کرنے والوں پر لگام کون کسیگا ایسے حالات میں جب مسلمان خوف و ہراس کے ماحول میں ہے انہی سے امن کی برقراری کی یقین دہانی مانگی جا رہی ہے تاہم اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت کو دیگا کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے مسلمان دستور اور عدلیہ کے روزِ اوّل سے پابند ہے اور جب تک ملک میں رہیں گے ملک کی عدلیہ کا احترام کرتے رہیں گے مسلمانوں کا مقصد ہمیشہ سے ملک میں امن و امان اور خوشحالی کا رہا ہے اور انشاء اللہ آگے بھی رہے گا