ابھی تک سعودی عرب کے قومی نصاب میں رامائن اور مہابھارت مطالعات متعارف نہیں کروائی گئیں ۔ سعودی صحافیوں اور دانشوروں نے بھارتی میڈیا میں غیر تصدیق شدہ رپورٹس کے منظر عام پر آنے کے بعد واضح کیا۔
اپریل 18 کو ہندوستان کے ایسٹ کوسٹ ڈیلی اخبار نے دعوی کیا تھا کہ سعودی عرب کے نئے وژن 2030 کے مطابق ، طلباء کے مطالعے کے لئے ریاست کے نئے نصاب میں رامائن اور مہابھارت کے ہندو مذہبی متن کو متعارف کرایا گیا ہے۔
میڈیا ایجنسی نے ایک سعودی عورت نوف المروایی کے ٹویٹ کے حوالا دیا جہاں اس نے اپنے بیٹے کے آن لائن امتحان کے اسکرین شاٹس شیئر کیے ہیں ، اور دعوی کیا ہے کہ ، “سعودی عرب کا نیا وژن 2030 اور نصاب آج کل کی نسل میں ہم آہنگی ، اعتدال پسندی اور رواداری پیدا کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ میرے بیٹے کے اسکول امتحان کے اسکرین شاٹس میں آج سوشل اسٹڈیز میں ہندومت ، بدھ مت ، رامائن ، کرما ، مہابھارت اور دھرم کے تصورات اور تاریخ شامل ہیں۔ مجھے اس کے مطالعہ میں مدد کرنے میں بہت خوشی ہوئی”۔
اس ٹویٹ کی ہندوستان کے ہندو اقوام عالم میں زبردست پذیرائی ہوئی ، جنہوں نے ان کی تعریف کی ، اور سعودی عرب کے نئے وژن 2030 کی بھی ۔
ہندوستانی میڈیا چینلز نے اس دعوے کا جشن منایا اور اعلان کیا کہ سعودی عرب نے اپنے قومی اسکول کے نصاب میں ہندو مذہبی متن کو متعارف کرایا ہے۔ حالانکہ اس خبر میں سعودی وزارت تعلیم یا سعودی میڈیا وزارت کے کسی بھی سرکاری ذریعے کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔
بعد میں سعودیوں نے نہ صرف اس رپورٹ کی تردید کی ، بلکہ واضح بھی کیا کہ وہ ہندوستانی ثقافت کا احترام کرتے ہیں ، لیکن ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے جہاں مملکت کے قومی اسکول کے نصاب میں ترمیم کی گئی ہو۔
سعودی عرب کے مشہور کالم نگار ابرہیم السلیمان نے جوابی ٹویٹ کیا ، “پروفیسر نوف ، میں آپ کے اس بیان سے متفق ہوں کہ بین الاقوامی اسکولوں میں انکی کمیونٹیز کے لئے تعلیم کی آزادی ہو ، جو ان کی برادری کے ممبروں یا ان کی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد تک ہی محدود رہے ۔ اور یہ معاملہ نیا نہیں ہے ، کیونکہ یہ اپنے قیام کے بعد سے ہی انکے اپنے مخصوص فریم ورک اور نصاب تعلیم کے تحت ہی لاگو ہوتا رہا ہے . اور اسکو سعودی نجی اور مقامی عوامی تعلیم کے نصاب کے ساتھ ملایا نہیں جاسکتا ہے۔
سعودی پروفیسر عمر السبیعی نے کہا کہ وہ گذشتہ 25 سالوں سے درس دے رہے ہیں ، اور تمام مضامین صرف عربی زبان میں ہی پڑھائے جاتے ہیں۔ سعودی اسکول کے نصاب میں انگریزی زبان میں معاشرتی علوم شامل نہیں ہیں ، لہذا انہوں نے بتایا کہ سوالات کا تعلق ہندوستانی اسکول سے ہے۔
عمر نے ٹویٹ کیا ، “میں 25 سال سے پڑھا رہا ہوں… سعودی عوامی تعلیمی نظام میں انگریزی میں صرف انگریزی زبان کا مضمون پڑھایا جا سکتا ہے ، اس کے سوا سوالات انگلش میں لکھنا ممنوع ہے … یہ سوالات شاید ہندوستانی اسکولوں کے لئے ہی ہوں”۔
آزاد سعودی سیاسی تجزیہ کار عمر الغامدی نے الماروای کو مخاطب کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ، ” آپ کا بیٹا آپ کے خاندانی تعلقات کی وجہ سے سعودی عربیہ کے ایک انٹرنیشنل انڈین اسکول میں پڑھ رہا ہے۔ یہ اسکول ویژن 2030 سے برسوں پہلے سے قائم اور ایک ہی تعلیمی نصاب پڑھاتا آرہا ہے ۔ ہم اپنے وژن کے احترام میں ، کسی بھی بین الاقوامی نصاب کو اس سے جوڑنے کو ایک بہت بڑا جھوٹ سمجھتے ہیں ۔”
سعودی خاتون نجوا التواوجری نے ٹویٹ کیا ، “ہم سب مذاہب کا احترام کرتے ہیں ، لیکن آپ نے جھوٹ بولا اور کہا کہ یہ سعودی اسکولوں کا نصاب ہے ۔ حالانکہ یہ سعودی عرب میں ہندوستانی برادری کے لئے ہندوستانی اسکولوں کا ایک نصاب ہے! مجھے نہیں معلوم کہ آپ کا اس جھوٹ کو وژن 2030 سے جوڑنے کا کیا مقصد ہے!؟
عمر الغامدی نے سعودی وزارت میڈیا کو ٹیگ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ، “یہ ٹویٹ ہندوستانی میڈیا میں وسیع تر پیمانے پر گونج اٹھا اور سعودی عرب کے تعلیم کے بارے میں غلط اور منفی امیج کو ابھارا۔ ہندوستانی میڈیا نے اس ٹویٹ کو سعودی وزارت تعلیم و اطلاعات سے بغیر تصدیق کیئے شائع کیا” ۔
ریاض میں مقیم ڈینٹل اسپیشلسٹ ڈاکٹر ثمینہ خان نے سعودی اسکول کے نصاب کی جانچ کی اور بتایا “پورے نصاب کا متن عربی زبان میں ہے اور پوری معاشرتی علوم کی متنی کتاب میں مہابھارت یا رامائن کا کوئی ذکر نہیں ۔ یہ واضح نہیں کہ اس بات کو پھیلانے میں مذکورہ ٹویٹر صارف کا کیا مقصد ہے” ۔
ڈاکٹر خان نے ریاست کے عوامی نصاب کی سوشل اسٹڈیز کتاب کی پی ڈی ایف دستاویز بھی شیئر کی ، جس میں غیر ملکی علوم کا کوئی تعارف نہیں ۔
بالآخر نوف المروایی کو یہ بات واضح کرنا پڑی کہ اس کا پچھلا ٹویٹ سعودی عرب کے بین الاقوامی نصاب کے بارے میں ہی تھا ۔ ٹویٹ سعودی قومی نصاب کے بارے میں نہیں تھا اور نہ ہی وہ طلبا کو ہندو مذہب کی تعلیم دیتے ہیں ۔اسکا ٹویٹ بین الاقوامی طلباء کو ہندوستان اور عظیم ہندوستانی تہذیب کے بارے میں آگاہ کرنے کے بارے میں تھا ۔
انہوں نے ٹویٹ کیا ، “میرے عزیز ، یہ سعودی عرب کے بین الاقوامی اسکول کا نصاب ہے جو وزارت تعلیم نے بین الاقوامی طلباء کے لیے منظور کیا ہے ، اور میں نے یہ نہیں کہا کہ یہ ہندو مذہب کی تعلیم دیتا ہے ۔ میں نے کہا تھا کہ ہندوستان کی تہذیب ، مذاہب اور تاریخ بطور معلومات اس میں شامل ہیں ۔ جہاں تک رامیانہ اور مہابھارت کا تعلق ہے ، تو وہ ثقافتی تاریخی مہاکاوی ہیں جن کا ذکر اُس نصاب میں کیا گیا ہے
پھر ڈاکٹر خان نے کہا، سعودی عرب کی وزارت تعلیم نے ہمیشہ نجی اور بین الاقوامی اسکولوں کے نصاب تعلیم کی نگرانی اور منظوری دی ہے۔ الیڈ اور اوڈیسی آف ہومر (یونانی متکلم) یا مہابھارت اور رامائن (ہندستان کے افسانوں) جیسے افسانوں کے بارے میں عمومی معلومات کئی دہائیوں سے بین الاقوامی اسکولوں میں پڑھائی جاتی رہی ہیں اور اس میں کوئی نئی تبدیلیاں وژن کے مطابق نہیں کی گئیں جیسا کہ نوف نے دعوی کیا ۔
مزید ان مہاکاوی کی اصل نصوص کو وزارت نے منظور نہیں کیا اور نہ ہی کسی اسکول میں پڑھایا جاتا ہے۔ کسی چیز کا مطلع کرنا اور در حقیقت اسکو پڑھنا بالکل دو مختلف چیزیں ہیں
مزید یہ کہ ہندوستان کے سرکاری میڈیا اور ایجنسیوں نے خبر نشر نہیں کی ۔ جیسے کہ ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) اور پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) نے ۔ اور نہ ہی سعودی عرب کی سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) يا اوکاز نے یہ خبر شائع کی ۔ چونکہ یہ خبر آزاد میڈیا یونٹوں اور افراد کے ذریعہ کی جاتی ہے لہذا سعودی حکام کی طرف سے اس بارے میں کوئی سرکاری وضاحت نہیں کی گئی ہے ۔